اس شہر بیقراں میں
Saturday, June 06, 2009
اس شہر بیقراں میں کتنے ہزار چہرے
کتنی ہزار آنکھیں
کتنی چہل پہل ہے
کیا اژدہام آدم
زندگی یہاں پر کیسے راواں دواں ہے
گلیوں میں شور و غل ہے
تو سڑکوں پہ دھواں ہے
جس جا قدم پڑے ہے
اس جا پہ روشنی ہے
اے آنکھ تو کیا ہے
تو کیوں نہ دیکھتی ہے
ایسی چہل پہل سے گوشہ نشینی بہتر
اور ایسی روشنی سے بہتر تو تیرگی ہے
کتنے ہی ہیں یہاں پر ایک وہ نہیں ہے
جسے دیکھنا بصارت ، سننا جسے سماعت
جسے چھونا لمس ہے اور
جسے پانا زندگی ہے
اس شہر بیقراں میں
چہروں کے درمیاں میں
میری آنکھیں تیرا چہرہ
اکثر ہی ڈھونڈتی ہیں
تیری یاد میرے دل سے
اک پل کو دور کیا ہے
ایسا کیا جو اس میں
میرا قصور کیا ہے۔
کتنی ہزار آنکھیں
کتنی چہل پہل ہے
کیا اژدہام آدم
زندگی یہاں پر کیسے راواں دواں ہے
گلیوں میں شور و غل ہے
تو سڑکوں پہ دھواں ہے
جس جا قدم پڑے ہے
اس جا پہ روشنی ہے
اے آنکھ تو کیا ہے
تو کیوں نہ دیکھتی ہے
ایسی چہل پہل سے گوشہ نشینی بہتر
اور ایسی روشنی سے بہتر تو تیرگی ہے
کتنے ہی ہیں یہاں پر ایک وہ نہیں ہے
جسے دیکھنا بصارت ، سننا جسے سماعت
جسے چھونا لمس ہے اور
جسے پانا زندگی ہے
اس شہر بیقراں میں
چہروں کے درمیاں میں
میری آنکھیں تیرا چہرہ
اکثر ہی ڈھونڈتی ہیں
تیری یاد میرے دل سے
اک پل کو دور کیا ہے
ایسا کیا جو اس میں
میرا قصور کیا ہے۔