Apr 18, 2009

زندگی چھوڑ گیا مار کے جانے وال

Saturday, April 18, 2009


زندگی چھوڑ گیا مار کے جانے والا
کتنا نادان تھا وہ طیش دکھانے والا
ہم سے مفلس کی قبا میں تو لگا تھا پیوند
کیا عجب تھا جو کیا کام زمانے والا
اسنے ہم سے نہ رکھی کوی وفا کی امید
اورنہ گھاو ہھی اسکا تھا بھلانے والا
جنتی ہو کے مریں اور جناء تک پہچیں
ہم سے اب دور ہے وہ ناز اٹھانے والا
دنیا والوں نے نہ اپنایا تو صوفی بنکر
دنیا والوں کو نی بات سنانے والا
اب جو مرتا ہے تو یہ سوچتا ہے کہ کیا مرے
اٹھھ نہ پایا کے جو اب آیے اٹھانے والا
اسکو مجبور لبادہ دوں یا پر عزم نگاہ
یا کوی گھاو ہی دکھلاوں پرانے والا
یا کہوں تیرے لے میں بنا تیرا باغی
کہ تیرا کام نہ تھا مجھکو بنانے والا
اپنے محبوب سے مانگوں کویی رومال کے دے
دے زرا مجھکو ندامت کو چھپانے والا
تیری الفت میں جیے تیری قبر تک پہچے
اب بھی ہے طور وہی مانگتے جانے والا
خوان تیار ہے اور وقت مناسب ہے کہ یہ
دیکھھ لیتا ہے ہر اک ہاتھھ اٹھانے والا۔



0 comments:

Post a Comment

Your wrods are important...